Search Your Query

Custom Search

Friday 21 January 2011

rutto k sada dilon ki woh halte bhi gayi


رُتوں کے ساتھ دلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں

ہوا کے ساتھ ہوا کی امانتیں بھی گئیں


ترے کہے ہوئے لفظوں کی راکھ کیا چھیڑیں

ہمارے اپنے قلم کی صداقتیں بھی گئیں


جو آئے جی میں پکارو مجھے، مگر یوں ہے

کہ اس کے ساتھ ہی اسکی محبتیں بھی گئیں


عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا

سکون ڈھونڈنے نکلے تھے وحشتیں بھی گئیں


یہ کیسی نیند میں ڈوبے ہیں آدمی امجد

کہ ہارتھک کے گھروں سے قیامتیں بھی گئیں
امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...