میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے
یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے
نئے دور کے نئے خواب ہیں، نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے
ذرا دیکھ چاند کی پتیوں نے بکھر بکھر کے تمام شب
تیرا نام لکھا ہے ریت پہ کوئی لہر آ کے مٹا نہ دے
میں اداسیاں نہ سجا سکوں کبھی جسم و جاں کے مزار پر
نہ دئے جلیں میری آنکھ میں مجھے اتنی سخت سزا نہ دے
میرے ساتھ چلنے کے شوق میں بڑے دھوپ سر پر اٹھائے گا
تیرا ناک نقشہ ہے موم کا کہیں غم کی آگ گھلا نہ دے
میں غزل کی شبنمی آنکھ سے یہ دکھوں کے پھول چنا کروں
میری سلطنت میرا فن رہے مجھے تخت و تاج خدا نہ دے
No comments:
Post a Comment